حقیقت کچھ اور خواب اور ہیں
دیکھنے ابھی کتنے عذاب اور ہیں
گزری ہے زندگی سیلابوں میں ساری
دیکھنے ابھی کتنے سیلاب اور ہیں
کھا گئی کتنے ، تیری جادو نگاہی
میرے پاس کیا ، شباب اور ہیں
کیجئے کچھ تو ، ناتوانی کا خیال
مقصود کتنے امتحان جناب اور ہیں
کرتے ہیں جو ، تا حال تیار احترام
پیچھے اس کے ، اسباب اور ہیں
جان چھٹتی نظر آتی نہیں یہاں
نجانے کتنے باقی ، حساب اور ہیں
کس کس کا منہ کراؤ گے بند
مہربان ابھی اور ، احباب اور ہیں
چشم خشک کو میری نہ دیکھئے طاہر
جاری ان میں راوی و چناب اور ہیں