حق کو ناحق سے ملاتے کیوں ہو
مجھ پہ الزام لگاتے کیوں ہو
جو تمہارا نہیں اسے آخر
جبر سے اپنا بناتے کیوں ہو
جن کی تعبیر نہیں پاسکتے
ایسے خوابوں کو سجاتے کیوں ہو
خوب سے خوب تر کی چاہت میں
جان کو روگ لگاتے کیوں ہو
اپنی تقدیر کے مالک ہو کر
اشک آنکھوں سے بہاتے کیوں ہو
جو مقدر ہے وہی ہونا ہے
تم اپنی جان جلاتے کیوں ہو
کوئی اہل ستم سے یہ پوچھے
ہمارے دل کو ستاتے کیوں ہو
کر کے احسان ہمارے دل پہ
پھر وہ احسان جتاتے کیوں ہو
اپنے آئینہ دل کو عظمٰی
روبرو سنگ کے لاتے کیوں ہو