نہ کیوں تمہیں سنائیں وہ حیاتِ دلبرانہ
وہ نقیبِ حرّیت ہی وہ ہی فاتحٍ زمانہ
وہ تو سرفروش ایسا نہ ملے جہاں میں ویسا
رہا دبدبہ ہی اس کا جو جھکا دیا زمانہ
وہ ہی محمودالحسن تھےجو اسیرِ مالٹا ہی
رہی قوتِ لسانی کبھی شمشیرِ براں بھی
رہی خاص ہی توجہ ہوئی خاص تربیت بھی
رہی مستقل ہی صحبت تو اکابر اولیاء کی
وہ قرآں کے تھے مترجم وہ محدثِ زمانہ
وہ تھے بوریہ نشیں تو مزاجِ قلندرانہ
وہ ہی بانی اور محرّک ریشمی رومال کے تھے
کیا زلزلہ ہی طاری تو قلعوں میں سروری کے
رہا امتزاج ایسا وہ ہو دینی یا ہو عصری
تو ملے مثال اس کی یہی جامعہ ملّیہ ہی
ہے طویل ہی تو فہرست جو تلامذہ تھے ان کی
تو بجھائی علم کی ہی کئی اک کی تشنگی بھی
رہا ذوق شاعری کا تو موزوں رہی طبیعت
کبھی عربی فارسی تو کبھی اردو پہ قناعت
رہے کوئی بھی تو شعبہ ہمہ گیر ہے ہی خدمت
وہ ہو دین اور شریعت یا تو ہو کوئی قیادت
ہے شمار اُن کا مشکل جو تھے اُن کے کارنامے
وہ تو ذات میں ہی اپنے تھے وہ انجمن ہی سارے
رہیں وہ غریق رحمت ہے دعا مؤدبانہ
تو قبول ہر مشن ہو جو تھا ان کا مخلصانہ