حیثیت ہی کیا ہے تنکے کی دریا کے سامنے
دیا چلے ہے جیسے کوئی ہوا کے سامنے
کچھ کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرو
جواب دینا ہا گا کل ، خدا کے سامنے
ہجوم ماہ و انجم ،رقص گل و ریحان ساقی
ماند پڑ گئے سبھی تیرے رنگ حنا کے سامنے
چشم تصور نے شفق کے دیکھے ، ہزار رنگ
کچھ نہ تھے مگر تیری سرخیء حیاء کے سامنے
جبیں ہماری ، قدم بقدم جھکتی رہی تمام عمر
سجدہ گاہ بنتی گئی تیرے نقش پاء کے سامنے
بڑے سر مارے تھے طاہر تیرے کوچے میں لیکن
کوئی نہ چل سکی ہماری ، قضاء کے سامنے