خاموشی تھی لبوں پے
دل میں طوفان چلتا رہا
کھووا خود گیا تھا پیاسے کے پاس
نجانے کیوں پیاسا ہی راہیں بدلتا رہا
مدتوں کا سودا اک پل میں ہو گیا
بازاریں عشق میں ، عاشق ہی سولی چڑھتا رہا
پتھروں کا کوئی غم نا تھا مجھے لکی
جکہ پہلا پتھر ہی محبوب سے پڑتا رہا
کوئی تو پوچھیں میں جیت کے کیوں ہار گیا
جبکہ میرے دلدار کا اصرار میری موت تک جاتا رہا
وہ تعلق ترک کرتا بھی تو کیسے کرتا لکی
جبکہ یہ تعلق ُاس کے لیے کوئی معانی ہی نہ رکھتا رہا