خدا کی کون سی ہے راہ بہتر جانتا ہے
مزہ ہے نیکیوں میں کیا قلندر جانتا ہے
بہت ہمدرد ہیں میرے مگر انجان ہیں سب
مرے زخموں کی حالت کو رفوگر جانتا ہے
کسی سے میں نہیں کہتا مگر میری غریبی
مری دیواروں کا اکھڑا پلستر جانتا ہے
کبھی مندر کبھی مسجد پہ ہے اس کا بسیرا
دھرم انسانیت کا بس کبوتر جانتا ہے
صنم تیری جدائی میں کٹا ہے وقت مشکل
گنے دن ہجر میں کتنے کلنڈر جانتا ہے
کہیں بھر پیٹ روٹی تو کہیں سے ہاتھ خالی
کسی کی کیسی ہے نیت گداگر جانتا ہے
میں پیاسا رہ کے بھی منت نہیں کرتا کسی کی
بہت خوددار ہوں میں یہ سمندر جانتا ہے
کسی بھی وقت یہ مظلوم کر دیں گے بغاوت
ستم کی ہو چکی ہے حد ستم گر جانتا ہے
رہیں ارتھی سے باہر ہاتھ اس کا قول ہے یہ
نہ کچھ بھی ساتھ جائے گا سکندر جانتا ہے
تمہاری یاد میں راتیں کٹی ہیں مشکلوں سے
رہا ہوں کتنا میں بے چین بستر جانتا ہے
نہ ہوگا دوسرا پیدا جہاں میں کوئی گاندھی
بہت اچھی طرح سے پوربندر جانتا ہے
یہاں ہے بھیڑ میں بھی کس قدر ہر شخص تنہا
تمہارے شہر کا ہر ایک منظر جانتا ہے
احدؔ جینے کو تو سب جی رہے ہیں اس جہاں میں
مگر اس زیست کا مطلب سخنور جانتا ہے