تھا کل تک جو حُسن و اداﺅں کا خریدار
آج دیکھو بن گیا ہے وفاﺅں کا خریدار
آیا تھا رات مجھ سے آنسو خریدنے
اِس دَور کا مشہور دریاﺅں کا خریدار
ہر طرف دِکھ رہے ہیں پیڑ آگ کے
بستی میں آ گیا ہے چھاﺅں کا خریدار
شہر بدر ہوئے ہم جس کی بدولت
گاﺅں پہنچے تو بن چکا تھا گاﺅں کا خریدار
خود جل گیا، بجھا نہ سکا حاوی کا جلا دیپ
نفرت کی آندھیوں اور جفاﺅں کا خریدار