خزاں لائی رنج موسم غم بھی حد سے نکل چکے تھے
سوچا جن کو شریک حیات وہ لوگ کب کے بدل چکے تھے
اس صحرائے شام میں دوُر دوُر تک ویرانی پائی
شاید کوئی آندھی چلی کہ سب نظارے ڈھل چکے تھے
توقف کے عالم نے ہماری سرپرستی اس طرح کی
کہ کچھ درد چھپائے رکھے اور کچھ درد رو چکے تھے
ہم نشینوں لیئے اتنا سوچا کہ اپنی دنیا بھی بھول گئے
پھر بھی ہمیں تنہائی ملی اور وہ جہاں سے مل چکے تھے
سنتوشؔ ہم فنا نہ تھے، ہجر نے کی تھی حرام زندگی
آج کوئی ملنے آیا تب ہم دنیا سے جا چکے تھے