خزاں کے سُوکھے پتوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں
گلشن کی خستہ حالی سے دامن سجائے پھرتا ہوں
صحرا کی تپتی ریت پہ چاہت کی اِک اُمید لیُے
کچھ پھول ہیں مرجھائے ہوئے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا ہوں
ہر بندہ غرص کا بندہ ہر شخص یہاں ہرجائی
اس عالم میں میں محبت کی اِک شمع جلائے پھرتا ہوں
نفرت کی تاریکی میں حرص کے بادلوں کے پیچھے
نکلتا ہوا چاند چایت کا سب کو دکھائے پھرتا ہوں
آس لیے اُمید لیے ہر در پہ ساجد مارا مارا اس
گلشن کی بقاء کے لیے دامن پھیلائے پھرتا ہوں