خموشی کی زباں میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
ہمیں اشکوں سے شرح ارزو کرنی بھی آتی ہے
فقط ہاتھوں سے مہندی کو رچانا ہی نہیں آتا
انھیں ہر آرزو میری لہو کرنی بھی آتی ہے
نہیں دشوار کوئی ، منزل مقصود کا ملنا
سفر در پیش ہو ، تو جستجو کرنی بھی آتی ہے
ادب مانع ہے ، ورنہ بارگاہ ناز میں جا کر
ہمیں ہر بات ان کے روبرو کرنی بھی آتی ہے
کہیں ایسا نہ ہو گھبرا کے وہ محفل سے اٹھ جائیں
کہ اس ناچیز کو کچھ ہاؤہو کرنی بھی آتی ہے
کسی کے مرتبے کا پاس ہے وقت سخن لازم
تمھیں واعظ کسی سے گفتگو کرنی بھی آتی ہے
بہا کر خون دل ، ارمان سب اپنے لہو کر کے
ترے کوچے کی مٹی سرخرو کرنی بھی آتی ہے
جناب شیخ سے ہے مختلف اپنی قدح نوشی
بحمد اللہ عباد بے وضو کرنی بھی آتی ہے
نصیر ! اپنوں کی عزت لوگ کرتے آئے ہیں ، لیکن
وہ ہم ہیں جن کو تعظیم عدو کرنی بھی آتی ہے