خوابِ اُلفت میں جب تم سے مِل آتا ہوں
تو پہرو بیٹھ کر اپنا دل جلاتا ہوں
شبِ تنہائی میں بیدار ہو کر، بستر سے
تمہارے خوابوں کی راکھ اُٹھاتا ہوں
کرب کی پیاس جب ستانے لگتی ہے
دلاسوں کے اِک گھونٹ انہیں پِلاتا ہوں
ڈسنے لگتی ہے پھر قیدِ تنہائی
خوف کے مارے دیوار سے لگ جاتا ہوں
نظر پڑتی ہے تجھ سے جُڑی چیزوں پر
تیری یادوں کے تَسلسُل میں کھُو جاتا ہوں
وقتِ ماضی کے اُسی موڑ پر کھڑے ہو کر
تجھے آواز دے کر آج بھی بُلاتا ہوں
نہیں ملتی ہے رہائ غمِ ہجراں سے
اپنے وجود کی زنجیر بھی ہِلاتا ہوں
چُپ کی وحشت میں دَم گُھٹنے لگتا ہے
تب رازداں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہوں
مجروح ہوتی ہے محبت کی آبرؤ حُسینؔ
کسی کے سامنے جب حالِ دل سُناتا ہوں