خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا
دل مکمل کبھی تسخیر نہیں ہو سکتا
آج روٹھے ہوئے ساجن نے بلایا ہے مجھے
آج تو کچھ بھی عناں گیر نہیں ہو سکتا
ہو نہ ہو یہ کوئی اپنا ہی کھُلا ہے مجھ پر
میرے دشمن کا تو یہ تیر نہیں ہو سکتا
باندھ لے دوست! گرہ میں یہ میرا فرمایا
کچھ بھی کر لے تو مگر میر نہیں ہو سکتا
کربلا کے لئے مخصوص ہے بس ایک ہی شخص
دوسرا کوئی بھی شبیر نہیں ہو سکتا