تم نے دیکھی ہے خواب گاہ میری
میں نے اِک شمع جلائے رکھی ہے
یوں تو تاریکی ہے اِرد گِرد بہت
مگر کھڑکی سے چاند کی چاندنی
در و دیوار پر رقص کرتی ہیں
اس دریچے کے دیمک زدہ دروازے پر
اِک مدت سے کوئ دستک نہیں ہوئ لیکن
سرد موسم کی تیز ہوائیں
اس سے الجھتی ہیں شور کرتی ہیں
مجھ کو دھڑکا سہ لگا رہتا ہے
وہ کہیں اندر نہ داخل ہو جائیں
اتنی خاموشی اتنے سناٹے ہیں
آنکھ لگ جائے اگر کچھ پل کو
تو گھڑیال کے گھومتے کانٹے
اس قدر شور برپا کرتے ہیں
میں چین سے سو نہیں پاتا
میری ٹیبل پر کچھ بکھرے کاغذ
خود کو پڑھنے پر مجھے اُکساتے ہیں
اُس پر درج کہانی ماضی کی
مجھے آج بھی ادھوری لگتی ہے
میں اس کی تکمیل کیلئے اکثر
اپنے خوابوں کو مار دیتا ہوں
اور پھر جاگتی ہوئ آنکھوں سے
یونہی ہر شب گزار دیتا ہوں