خواہشِ دنیا سرابِ زندگی ہے ، کچھ نہیں
زندگی بس چار دِن کی چاندنی ہے ، کچھ نہیں
ایک دو پل کو اگر مِل جاۓ تھوڑی سی خوشی
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کافی خوشی ہے ، کچھ نہیں
دیکھ کر تم کو ذرا سی آگییٔ رونق ، مگر
میرے چہرے پر جو تھوڑی تازگی ہے ، کچھ نہیں
میری بربادی پہ تم نوحہ کناں ہو کس لیے ؟
بس ذرا دِل کی عمارت گِر گییٔ ہے ، کچھ نہیں
کون مرتا ہے کسی کے واسطے سچ ہے یہی
عشق ہے ذہنی خلل دیوانگی ہے ، کچھ نہیں
جب بھی لیتے ہیں وفا کا نام ان کے سامنے
وہ یہ کہتے ہیں ہماری سادگی ہے کچھ نہیں
خواب خوشیوں کے بہت دیکھے تھے عذرا کیا ملا ؟
دُور تک غم کا اندھیرا ، بے کسی ہے ، کچھ نہیں