فکر و تدبیر کے کوزے میں سما سکتے ہیں
مسئلے عشق کے سلجھائے بھی جا سکتے ہیں
لوحِ محفوظ نہیں قصۂ رنج و غمِ ہجر
چند الفاظ ہیں، تحریر میں آ سکتے ہیں
وہ زمانے کے خداوند ہیں، ناچار نہیں
پردۀ غیب سے آواز لگا سکتے ہیں
چشمِ موسیٰؑ نہیں دیدار کی مشتاق فقط
مدعا ہم بھی زباں پر کوئی لا سکتے ہیں
ہو گیا آمدِ مہمانِ خصوصی کا وقت
اب فرشتے نئے قالین بچھا سکتے ہیں
کیا ضروری ہے شبِ وصل بچھونے مہکیں
بسترِ مرگ بھی پھولوں سے سجا سکتے ہیں
غیر کے ساتھ ہوں، بے وقعت و کم ظرف نہیں
آپ محفل میں مجھے پاس بٹھا سکتے ہیں
باغِ جنت میں بہت وقت میسر ہے ہمیں
یعنی اب ہم تری تصویر بنا سکتے ہیں
دے چلے ضعف میں بیمار کے اعصاب جواب
آپ تکیے سے قلم دان اٹھا سکتے ہیں
ہم ہوئے دشت و بیاباں کے مسافر تنہاؔ
کوچۂ یار کی راحت کہاں پا سکتے ہیں