خود سے ہی دور بھاگا جا رہا ہوں
منزل اب کوئی نہیں یوں ہی چلتا جا رہا ہوں
بدلتا جاتا ہوں اس دھواے کی طرح
ہواؤں میں کہیں گم ہوتا جا رہا ہوں
مجھے چاہت ہے اب تنہائیوں کی
محفلوں سے تیری اُٹھتا جا رہا ہوں
ٹوتا ہوں ہر رات تیری یادوں میں کھوکر
ہر صبح تیرے نزدیک آتا جا رہا ہوں
کہتے ہیں پاگل مجھے،مانگتا نہیں کچھ اپنے لیے
مسافر کیا چاہے؟ بس تجھے دُعائیں دیتا جا رہا ہوں
نہیں جانتا اُس سے بچھر کر کیا کرنا چاہیے لیکن
خوشیِ جانہ کو سوچ کر آنسو پیتا جا رہا ہوں
تُو آمل، سمبھال یا سدھار دے مجھے
تجھ سے بچھر کر میں بگڑتا جا رہا ہوں
نہ کوئی ادیب ہوں نہ شاعری سے واسطہ کوئی
یہ تو دردِ دل ہے نعمان جو میں لکھتا جا رہا ہوں