خود کو غم کے اندھیرے میں گھرا ہی دیکھوں
عمر بھر اپنے آپ کو پھر تنہا ہی دیکھوں
بدل ہی جاتے ہیں راستے کبھی نا کبھی تو
مگر میں جہاں بھی جاؤں صحرا ہی دیکھوں
مانگتے مانگتے پانی میرے ہونٹ پتھر بن گئے
اس شخص کو پھر مشکیزہ لیئے کھڑا ہی دیکھوں
لوگ ڈرتے ہیں جانے کیوں مجھے ملتے سے
یہ سوچ کر دیر تلک میں آیئنہ ہی دہکھوں
محبت کا تعلق بس کچھ رہا اس طرح سے تنویر
وہ مجھے دیکھتا رہا اور میں دنیا ہی دیکھوں