خود کو لے جا کے کسی دشت میں آباد کیا
پھر وہاں بیٹھ کے ہر وقت تجھے یاد کیا
کیا کہیں ہم کہ تیری یاد سے پہلے جاناں
تھے بہت شاد تیری یاد نے ناشاد کیا
راس آتے ہیں مجھے درد کہ میں نے جاناں
ہے تیرے درد سے ہر درد کو ایجاد کیا
پاس آ کر کیا انکارِ محبت اس نے
اک عجب طرز سے اس نے ہمیں برباد کیا
ہو کے آزاد بھی اس کا میں گرفتار رہا
اس نے پر کاٹ کے میرے مجھے آزاد کیا
ماہرِ ضبط تھا اک وقت میں حیدر لیکن
کون تھا جس نے اسے مائلِ فریاد کیا