ہوگئی ایسی بھی کیا خطا ہم سے
رہنے لگا ہے اکثر وہ خفا ہم سے
ستم گر سے کیا اُمید ِکرم کریں
خوش رہے کر کے وہ جفا ہم سے
ڈر ہے کہ جب عہدنبھانے نکلے
تو زندگی نہ کر سکے وفا ہم سے
سفر درپیش ہوا ہے عمرِ فراق کا
مٹتا نہیں ہے پَل کا فاصلہ ہم سے
زندگی ہی بے رنگ ہو جائے رضا
روش ایسی نہ رکھے وہ روا ہم سے