خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے
Poet: آفتاب شکیل By: نعمان علی, Islamabadخوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے
 ہم وہ کاہل ہیں جو اتنا بھی نہیں کر سکتے
 
 وہ سناتے ہیں رہائی کے فریضے سب کو 
 جو رہا ایک پرندہ بھی نہیں کر سکتے 
 
 کتنے مجبور ہیں ہم عام سی شکلوں والے 
 خود کو ایجاد دوبارہ بھی نہیں کر سکتے 
 
 چاہتے ہیں جسے دشمن کی نواسی نکلی 
 اب تو ہم عشق ادھورا بھی نہیں کر سکتے 
 
 اس لیے بنتا نہیں طنز تماشے پہ مرے 
 یاں تو کچھ لوگ تماشہ بھی نہیں کر سکتے 
 
 جسم سانسو کی ستم گار روانہ سے میاں 
 ایسا بکھرا ہے اکٹھا بھی نہیں کر سکتے
More Sad Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 