بڑا اتراتا پھیرتا ہے ظالم شرم تم کو مگر نہیں آتی
بے ہسی کا یہ عالم کہ خوف خدا بھی نہیں آتی
بڑا ہی ناز ہے تجھ کو امت کی پاسداری کا
ندامت سے جھکا ہے سّر، شرم تم کو نہیں آتی
جیں گے ہم کب تلک یہ کرب کی جو زندگی
امید ہی کچھ یوں کہ کوئی امید بھر نہیں آتی
دین کامل کر دیا صداقت سے امانت سے
ارے ظالم شرافت راس تم کو مگر نہیں آتی
غم زیست بھی یوں گزر ہی جائے گی درویش
اک آہ تو نکلتی ہےاثرسے پر آہ بھر نہیں آتی