خوف کی دہلیز پر اک عذاب چھوڑ جائے
فاختہ آشیاں کو زیر ِ سایہء عقاب چھوڑ جائے
شب ِ ہجر لکھ گیا مقدر میں جیسے
وصال رت کی نوازشوں کا حساب چھوڑ جائے
سمندروں کی وسعتوں پہ کھل کے برسا ابر ِ کرم
صحرا کی تشنگی ، کو یوں ہی بیتاب چھوڑ جائے
پناہ میں لے رہی تھی خلیلؐ کو آگ
اھل ِ کربل کو تڑپتا ہوا ، چناب چھوڑ جائے
شب کی مسافت میں ہمنوا تھی وحشتیں
صحرا کی تشنگی کو یوں ہی بیتاب چھوڑ جائے
لڑکپن کی یادیں آج ٹوٹ کے برسی "عدن"
کورے دریچے پہ کوئی تازہ گلاب چھوڑ جائے