خون دل آنکھ سے جو جاری ہے
مہربانی یہ سب تمھاری ہے
پھر وہی میں ہوں، آہ و زاری ہے
پھر مرے دل پہ رات بھاری ہے
اپنی قسمت میں اشک باری ہے
صبر و تسلیم خو ہماری ہے
جسکو احساس تک نہیں میرا
اس ستمگر سے میری یاری ہے
تو نے نظریں اٹھا کے جو دیکھا
ہر طرف رسم میگساری ہے
بوٹ لیتے ہیں مست آنکھوں سے
انکی مستی میں ہوشیاری ہے
آدمی کو غرور لے ڈوبا
نوحہ زن آج انکساری ہے
شان رحمت بھی جوش میں آئی
قابل عفو شرمساری ہے
ناز اٹھواتے کل تلک ، تم تھے
آ گئی آج میری باری ہے
رند جس کے ہیں منتظر، وہ فقط
پیر مخانہ کی سواری ہے
لوگ حیراں مری غزل سے ہوئے
تذکرہ ہر زباں پہ جاری ہے
راز دل کر دیا سبھی افشا
واہ کیا خوب راز داری ہے
گلشن شعر خون سے سینچا
خوب رومی کی آبیاری ہے