پرانی شاعری کا آج پھر مجھ کو خیال آیا
پرانی ڈائری کا آج پھر مجھ کو خیال آیا
اٹھایا طاق کھولی ڈائری اس پہ نگاہ ڈالی
ایک بیتی کہانی کا آج پھر مجھ کو خیال آیا
تمہیں پہلی نظر میں دیکھنا اور دیکھتے جانا
نگاہوں کے تصادم کا آج پھر مجھ کو خیال آیا
وہ گھبراتے ہوئے ذرا ذرا ڈرتے ہوئے میرا
تمہارے پاس آنا آج پھر مجھ کو خیال آیا
اپنے دل کا ہر اک قصہ ڈائری میں لکھ دینا
ادھورا وہ فسانہ آج پھر مجھ کو خیال آیا
تمہیں ملنا تو چاہا تھا مگر ہم مل نہیں پائے
ہوا دشمن زمانہ آج پھر مجھ کو خیال آیا
اگر معلوم ہوتا کہ وقت ہم کو بھی دغا دے گا
تو ہم تنہا نہ ہوتے آج پھر مجھ کو خیال آیا
جنہیں ہم بھول نہ پائے انہیں کو بھول بیٹھے تھے
انہی بھولے ہوؤں کا آج پھر مجھ کو خیال آیا