طلسم عشق تھا میرا بتانے آئی ہوں
خیال درد جو ملا سنانے آئی ہوں
ملا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند
بچھڑ گیا تھا مسافر بھلانے آئی ہوں
عجیب رنگ یہ بستی ہے اس کی نگری بھی
ہر ایک فرد کو دیکھا ہسانے آئی ہوں
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھ کر سجا نے آئی ہوں
ہے استعارہ غزل اس سے بات کرنے کا
یہی وسیلہ ہے اب اس سے جانے آئی ہوں
ہنر کی آگ جلائی ہے خاک سے اس نے
کمال اس کا ہی ہے جو دکھانے آئی ہوں
سدا یہ سوچتی ہوں اس کا فیض کیا لکھوں
کہ میرا دوست دشمن بنانے آئی ہوں
کبھی دیا بھی ہے لمحہ کسی کو چاہت کا
تو زندگی کو میں ہی آزمانے آئی ہوں
میں اس کو بھولنا چاہوں تو کیا کروں وشمہ
جو مجھ میں زندہ ہے وہ ہی مٹانے آئی ہوں