خیال ہے کیا اک سودا سر ء عام کرو گے
لے کے محبت وفا میرے نام کرو گے
ہر صبح کسی پھول کی خوشبو کی طرح
چاند کی مثل روشن میری شام کرو گے
بسا کے رکھو گے اپنی نگاہوں میں سدا
میرے دل میں کیا تم قیام کرو گے
آتش ء عشق میں ہر لمحہ جلنا ہو گا
بولو کیا تم بھی یہ کام کرو گے
یہ تغافل یہ رقابت یہ بے اعنائی تیری
محبت کو کتنا تم بدنام کرو گے
کرو گے جب تم الفت میں خساروں کا حساب
خود کو لازم ہے کہ برسر ء الزام کرو گے
صرف ء نظر ممکن نہ رہے گا تم پر
میرا ذکر میرے بعد سر ء عام کرو گے
منتظر ہے بزم میں سخن ور عنبر
کب بات دل کی تم لب ء بام کرو گے