جو لمحہ پہلے تھا ساتھ میرے
اسے دور جاتا دیکھتی ہوں
اک ٹھنڈے پڑے جسم کو
میں ملبوسِ کفن دیکھتی ہوں
وہ چہرہ جو دیکھ کر مجھ کو
کبھی جگمگایا کرتا تھا
میری چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر
پھول سا کھل جایا کرتا تھا
اس چہرے کو آج میں
نیلا پڑتے دیکھتی ہوں
وہ آنکھیں جو مجھ سے ملنے پر
کس طرح چمکتی تھیں
میرے دیدار کی خاطر
کس قدر ترستی تھیں
ان آنکھوں کو آج میں
سوئے ہوئے دیکھتی ہوں
ہاؤ ہُو کا عالم ہے
اک پُر زور تماشا بھی
ایسے میں نیلے ہونٹوں کو
سرگوشی کرتا دیکھتی ہوں
وہی مدھم، شفیق آواز میرے
کانوں سے ٹکراتی ہے
اور دلِ بےقرار کو
اک سبق پڑھاتی ہے
کہ میری جاں، میری دختر!
کیوں ایسے اشک بہاتی ہے؟
مجھ مرحوم کے سرہانے
کیوں اتنا روئے جاتی ہے؟
جہاں تو آج بیٹھی ہے
کل یہاں میں بیٹھا کرتا تھا
ایک ایک کر کے سب وڈیروں کو
یونہی جاتے دیکھا کرتا تھا
میری جاں، میری دختر!
یہی زندگی کا اصول ہے
جو ہے ایک بار یہاں آ چکا
اسے کبھی تو جانا ضرور ہے
بس بےخودی کے دھاگے سے کبھی
اپنی اوڑھنی نہ بننا تم
اور چھوٹے سے اس سفر میں
ذرا دھیان دھیان سے چلنا تم
میری یہ نظم میرے دادا جان کے نام جنھوں نے ہماری زندگیاں بنانے کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کر دی اور اپنی محبت اور خلوص دے کر مجھے بہت خوش قسمت ہونے کا احساس دلایا. دادا جان نے 2019-08-29 کو 105 سال کی عمر میں وفات پائی. اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے. آمین