زندگی تو نے نہ سنائی کہانی اپنی
کیسے برباد ہوئی بے داغ جوانی اپنی
وقت بے رحم نے توڑا مری ہستی کا غرور
دریائے حیات نے دکھلائی جو طغیانی اپنی
سوتے ہوئے کٹتے تھے شب و روز مرے
آہ بے اثر مری تھی نالے بے سوز مرے
اک حشر بپا تھا اس پر یہ تصور
فردا بھی مرا ہے سبھی امروز مرے
کیا بتاؤں کس طرح مجھے دنیا نے تھا گھیرا
ہر طرف خواہش کا جنوں حسرت کا تھا ڈیرا
روشنی جس کو میں سمجھا وہ اندھیرا تھا اندھیرا
ہوس اتنی بڑھی نہ رہا اپنا نہ تیرا
گناہ کرتے ہوئے میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا
دل وہ سیاہ کار شرمسار تو ہوتا ہی نہیں تھا
افسوس کہ تیری محبت کو میں سمجھا ہی نہیں تھا
احسان فراموش میں جتنا کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
آہ نادانی مری دل میں بٹھا بیٹھا تھا
لذت دنیا میں سب پونجی لٹا بیٹھا تھا
جسم میرا تھا کہ روح سے خفا رہتا تھا
بت خانہ تھا میں ہر جز میں خدا رہتا تھا