داستاں میری الگ ، تیرا فسانہ اور تھا
یہ زمانہ اور ہے ، تیرا زمانہ اور تھا
موت کے منہ سے پلٹ آیٔ جو وہ ننھی سی جاں
اِس جہاں میں اُس کا شاید آب و دانہ اور تھا
دیکھ کر زندہ مجھے حیران ہے دُشمن مِرا
اُس نے جِس کو پھوُنک ڈالا آشیانہ اور تھا
دُشمنی کی جو وجہ ہم کو بتایٔ تھی گییٔ
در حقیقت اُس کے پیچھے شاخسانہ اور تھا
آج میرا دِل ترِے تیرِ ستم کی ذد میں ہے
کل تلک تیری نگاہوں کا نشانہ اور تھا
دِل پہ تیری یاد کا اب شایبہ تک بھی نہیں
تجھ پہ جو مرتا رہا وہ دِل دیوانہ اور تھا
کر دیا اُس نے کھڑا طوُفاں ذرا سی بات پر
بات دِل میں تھی کویٔ لیکن بہانہ اور تھا
اس کا لوگوں نے تو مطلب ہی بدل کر رکھ دیا
گنگنایا تھا جو ہم نے وہ ترانہ اور تھا