فقیری کے بھی عالم میں شاہانہ انداز اپناۓ ہیں
دربار ء عشق میں ہم دل دان کر کے آۓ ہیں
محبت میں سنو تم عہد و پیمان مت کرنا
تم سے کتنے ہی ہم نے لوگ آزماۓ ہیں
کہیں نہ ٹوٹ جائیں شبنم سے حسیں جزبے
اسی سوچ میں اظہار کتنے ہی چھپاۓ ہیں
ذرا محتاط رہنا تم عشق کی صلیبوں پر
کئ شاہ اس نے فقیری میں الجھاۓ ہیں
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے چلو لوٹ جاؤ تم
ہماری روش وفا کی ہے سو اسے ہم نبھاۓ ہیں
اڑے گی خاک تو چرچا سارے شہر میں ہو گا
چھپ کے جو تم نے پرزے چند جلاۓ ہیں
خیال کچھ تو چلو آیا عنبر انہیں میرا بھی
سن کر حالات کو میرے وہ ذرا مسکراۓ ہیں