درد دل کو شفا نہیں ملتی
چارہ گر سے دوا نہیں ملتی
یہ تو ملتی ہے بس نصیبوں سے
مانگنے سے وفا نہیں ملتی
ان دریچوں کا کھولنا کیسا
جن سے تازہ ہوا نہیں ملتی
بے گناہوں کو قید و دار و رسن
مجرموں کو سزا نہیں ملتی
تیرے قدموں کو روک لے ایسی
میرے لب کو صدا نہیں ملتی
میں ہوں اک رات وہ ہوائے سحر
شب کو باد صبا نہیں ملتی
پھول گلشن میں کھل نہیں پاتے
جب موافق فضا نہیں ملتی
ماں کی ہستی اگر نہ ہو زاہد
تو کسی کی دعا نہیں ملتی