درد سے گریزاں

Poet: Bakhtiar Nasir By: Bakhtiar Nasir, Lahore

دل کو گھبرانا کب آتا ہے
وہ آتا ہے حوصلہ جاتا ہے

درد سے گریزاں کیوں ہوؤں
اسے پیارا کوئ سنوارتا ہے

مکاں کے اندر مکیں ندارد
ادھر کب کوئ دیکھ پاتا ہے

روح کے وحشی زخمی لوگ
جسم ہی انہیں سنبھالتا ہے

پھر کوئ قتل و حادثہ کی خبر
جب صبح کا اخبار آتا ہے

زرد پتے ہوئے زمیں بوس
سبز پتوں پہ درخت اتراتا ہے

رنگوں میں وہی رنگ دیکھوں
جو کینوس پہ صحیح بکھر جاتا ہے

جگ میں آکے یہ کچھ دیکھا
غم ہر جبیں پہ لہراتا ہے

اوپر سنہرے اندر کالے یار
ناصر ہر بار فریب کھاتا ہے

Rate it:
Views: 585
27 Apr, 2013