درد کا ہم سے دوستانہ ہے
زندگی غم کا تانا بانا ہے
اپنا ہنسنا تو اِک بہانہ ہے
مُسکراہٹ سے غم چھپانا ہے
چار و ناچار کھا رہے ہیں ہم
جو یہاں اپنا آب و دانہ ہے
عمر گزری ہے سوچتے جس کو
اب اُسی شخص کو بُھلانا ہے
غم مِٹانے کی ایک سعی سہی
اب مقدر تو آزمانا ہے
اُس کے پہلو میں بیٹھ کر اپنا
قصۂ غم اُسے سنانا ہے
لوگ اکثر یہ بات پوچھتے ہیں
کب تلک دُکھ سے جی لگانا ہے
آج تک اِس سے کون بھاگ سکا
موت ہی زیست کا ٹھکانہ ہے
ختم ہوگا یہ زندگی کے ساتھ
ہمنوا ، روگ یہ پرانا ہے
ٹھان لی ہے یہ دوستوں نے رضاؔ
بات بے بات دل دُکھاناہےچزچ