درد کتنا ہے جابجا مجھ میں
جانے کیا حادثہ ہوا مجھ میں
کون سے آہینے میں ڈھونڈوں اب
تیرا چہرا نہیں رہا مجھ میں
تھا کوئی شخص اِک مرے اندر
مجھ سے کیوں، کس لیے لڑا مجھ میں
عمر بھر کا سفر رہا درپیش
آخرش میں پہنچ گیا مجھ میں
اس قدر حبس بڑھ گیا اندر
اب مرا دم ہے گھٹ رہا مجھ میں
کیسا چلنا کہاں کا چلنا اب
راستہ ختم ہو چکا مجھ میں
ایک روگی نڈھال ہے کب سے
ایڑھیاں ہے رگڑ رہا مجھ میں
کس طرح سامنا کروں اپنا
اتنا دم اب نہیں بچا مجھ میں
پوچھ مت بعدِ ہجر کے حالات
کے برس میں ہی نہ اٹھا مجھ میں
ہر گھڑی خود میں کھویا رہتا ہوں
ایسا کیا ہے بھرا پڑا مجھ میں
عالمِ جانکنی رہا جس پر
رات وہ شخص مر گیا مجھ میں