درد کے آنسو پی کر دیکھے پیاس نہ بجھی دل کی
تم ہی کوئی تدبیر بتا دو آخر مجھے اس مشکل کی
کیسے میرے دن کٹتے ہیں کیسے راتیں گزرتی ہیں
تم آ جاؤ تو تمہیں سنا دوں بپتا اپنے اک اک پل کی
شام سویرے رستہ تکتی میری یہ ویراں آنکھیں
سوچتی رہتی ہیں سب باتیں اپنے بیتے کل کی
کاش کہیں سے کوئی پنچھی پھر وہ نغمہ چھیڑے
جو میری بوجھل طبیعت کو پھر سے کردے ہلکی
سر سر کرتی باد صبا نے پھر زلفوں کو چھیڑا
شوخ پون کا جھونکا آیا سر سے چنری ڈھلکی
پیاسی دھرتی کے سینے سے ہوک اٹھی تو رت بدلی
بنجر بستی میں ساون نے دیکھو کیسی جل تھل کی
ساون کی بوندوں نے عظٰمی میرا بھی اک کام کیا ہے
رت بدلی کے اس منظر نے میری مشکل بھی حل کی