درد خود ہی بڑھتا ہے
خود ہی پلتا ہے
جنگلی بیل کی طرح
دل کی دیواروں سے
چپکا رہتا ہے
جب کانٹ تراش کریں
اس کے پتوں کی
تو اپنا ہی لہو
نیچے ٹپکتا ہے
پھر جذب ہو کر
اس کی جڑوں میں
اسی کی خوراک بنتا ہے
اور جب پھول کھلتے ہیں
اس بیل پر
جیون کا لمحہ لمحہ
پھول کی مانند کھلتا ہے
جب انسان چاہے کہ
کوئی لمحہ توڑ لے
تو کانٹا پہلے چبھتا ہے
اور درد
اسی لمحے میں لے جاتا ہے
جہاں انسان کا
سارا جیون گزرتا ہے