ہم بھی کمال کرتے ہیں
غم بھی سہہ لیتےہیں
اُف بھی نہیں کرتے ہیں
آنسو بھی چھپا لیتے ہیں
مُسکراہٹ بھی سجا لیتے ہیں
ہر رات یونہی ہم مرتے ہیں
ہر صبح یونہی پھر جی لیتے ہیں
جب درد کی ٹیسیں اُٹھتی ہیں
ہنس ہنس کہ درد کو سہتے ہیں
پاگل سے جو ہم دکھتے ہیں
کُچھ اپنوں کی مہربانی ہیں
دھوکے جو میں نے کھاۓ ہیں
جو تکلیفیں میں نے اُٹھائ ہیں
وہ سبق مجھے دے گئ ہیں
نہ ہوتا کوئ کسی کا ہیں
سب جھوٹ اور فریب ہیں
اب میں نے یہ جان لیا ہے
نہ رکھنی کسی سے اُمیدِ وفا ہے