درپیش ہے پھر مجھ کو سفرکیوں نہیں جاتا
جل جائے نہ میرا یہ نگر کیوں نہیں جاتا
تنہائی کےصحراؤں میں جل جاؤں نہ تنہا
آجاؤ کہ پھر بارِدگر کیوں نہیں جاتا
اس سے بھی نہیں مجھ کو یہ شکوہ نہ شکایت
جب اپنے خیالوں کا نگر کیوں نہیں جاتا
اس بار بھی ہے میرا سخن اس کا نشانہ
الفاظ میں پھر زیروزبر کیوں نہیں جاتا
اک شعلہ ہے حسرت ہے تری یاد کا بادل
برسات ہے یادوں کی مگر کیوں نہیں جاتا
ہوجائے نہ اس بار خزاں میرا مقدر
مغموم ہیں سب برگ و شجر کیوں نہیں جاتا
جل جائے نہ منظر یہ کہیں شام سے پہلے
کچھ دیر تو ، تو پاس ٹھہر کیوں نہیں جاتا
بیٹھی ہوں خیالات کی جس سیج پہ وشمہ
یخ بستہ ہواؤں کا نگر کیوں نہیں جاتا