میں نے شہر سے جنگل تک بسیرا دیکھا ہے
نہ ملی وہ روشنی نہ ہی وہ امن دیکھا ہے
دریچہ دل ڈھونڈتاہےجووہ نگرنہ دیکھا ہے
خواہشیں رنگ بھرنگی پرپھرمرتےدیکھا ہے
غم کی شام کوبھی ایک مدت تک دیکھا ہے
لہروں کوکنارےسےملتے یا بچھڑتےدیکھا ہے
میں نے شہر سے جنگل تک بسیرا دیکھا ہے
ہاں مگر میں نے قسمتوں کوبدلتےدیکھا ہے