درد کے پیرائے میں کہا گیا مدعا
وہ کچھ سمجھا‘ کچھ نہ سمجھا
جھلستی دھوپ‘ تپتے آنگن میں
کوئی کھا رہا ہے گرم ہوا
چاہتوں کے گہرے پانی کو کوئی
ساحل سے تکتا رہا ہے تنہا
آہٹ مانوس تھی سنا کئے
گزر گئی چاپ‘ در نہ کھٹکا
بھولنے والے تو مل جاتے ہیں
یاد رکھنے والا نہ کبھی ملا
آہ کچھ ایسی بھی نکالو ناصر
بنا تڑپے رہے نہ وہ بے وفا