امنگوں سے بھرا موسم ذہن میں گھوم جاتا ہے
دسمبر جاتے جاتے پھر نئی وحشت جگاتا ہے
جسے مٹھی میں بھر کے ہم مقدر سے الجھتے تھے
وہی تارا میری آنکھوں میں اکثر ٹمٹماتا ہے
جو تیرے وصل میں گزرے ۔ انہی لمحات کا جادو
غم دوراں کے جنجھٹ سے مجھے اب بھی بچاتا ہے
میری بیتاب نظروں کی تپش کی تاب نہ لا کر
اتر کر چاند زینوں سے میرے آنگن میں آتا ہے
کبھی پتہ کوئی ٹوٹے جو شاخ نخل سے کٹ کر
تو سینے میں دھڑکتا دل سہم کر ٹھہر جاتا ہے
ترنم سے کہیں بڑھ کر تیرے لہجے کا دھیما پن
قسم تیری ۔ تکلم کو ابھی تک گدگداتا ہے
وہ جسکی ٹہنیوں پہ رات دن طائر چہکتے تھے
وہ برگد کا شجر اب بھی گئے پل کو بلاتا ہے
ٹھٹھرتی شام میں موتی کی صورت دمکتا چہرہ
میری سانسوں کے ماتھے پر ابھی تک جگمگاتا ہے