ہوتی ہے دسمبر کی ہر اِک شام اُداسی
ہر چیز پہ ہوتا ہے بس اِک نام اُداسی
ٹہنی سے وہ دم توڑتے گرتے ہویے پتے
آتی ہے نظر جِن پہ کلِ عام اُداسی
ڈوبی ہویی تنہایی میں ہر رات کا منظر
آغاز اُداسی میں اور انجام اُداسی
راتوں میں چمکتا ہوا وہ چاند وہ تارے
اشجار اُداسی میں در و بام اُداسی
خاموشیاں ٹہری ہویی ہوتی ہے سرِ راہ
ہوتا ہے صداوُں میں بھی پیغام اُداسی
کچھ اِس لیے بھی دل سے اُداسی نہیں جاتی
اِس ماہِ دسمبر پہ ہے اِلزام اُداسی