دلوں میں رکھتی ہیں خدشہ قدیم دیواریں
گرا دے اب کے نہ باد نسیم دیواریں
بنا رہے تھے مکیں ہجرتوں کے منصوبے
نگر میں نوحہ کناں تھیں یتیم دیواریں
کھلے محل مین اقامت کا اب جواز نہ ڈھونڈ
حساب مانگ رہی ہیں سلیم دیواریں
بنا رکھی ہیں نگر کے تمام بونوں نے
گھروں کے گرد لحیم و شحیم دیواریں
میں اپنے گھر میں بھی آہستہ بولتا ہوں رفیق
کہ میری بات نہ سن لیں غنیم دیواریں