دل بے اماں نہ ستاؤ پھر ہمیں
سرگوشیاں اس کی نہ سناؤ پھر ہمیں
بڑی قیمت چکائی ہے ہم نے خوابوں کی
بے تعبیر خوابوں کو نہ دکھاؤ پھر ہمیں
ہاں اس کے بن زندگی بہت ادھوری ہے
ضبط کچھ تو رہنے دو نہ آزماؤ پھر ہمیں
ابھی عروج پہ ہے اداسی اور درد سے شناسی
کچھ پل کو ٹھر جاؤ بہلاؤ پھر ہمیں
ہم کتنے عزیز ہیں تم سے قریب ہیں
مل کر تم کبھی بتاؤ پھر ہمیں
محبتوں سے میرے غم کی نفی کرو تم
امر کر دو یا مٹاؤ پھر ہمیں
سزاوار ء محبت ہیں ہم طالب وفاؤں کے
دل کی سچائیوں سے نبھاؤ پھر ہمیں
شاید کہ لوٹ آؤ تم بھی کسی روز
شاید کہ منتظر نہ پاؤ پھر ہمیں
ممکن ہے آنکھوں میں ہوں تمہارے مداوتیں
ممکن ہے تشنا لب نہ پاؤ پھر ہمیں
تمہیں فاصلوں کی طلب، ہمیں قربتوں میں قرار
واجب ہیں فاصلے تو بھلاؤ پھر ہمیں
اترو کبھی میرے دل کی ویرانیوں میں
لازم ہے چھوڑ کر نہ جاؤ پھر ہمیں
ہم روٹھ رہے ہیں آج پھر عنبر
آؤ کہ لوٹ کر مناؤ پھر ہمیں