دل تو ہے ایک مگر درد کے خانے ہیں بہت
اس لیے مجھ کو بھی رونے کے بہانے ہیں بہت
اب نئے دوست بنانے کی تو ہمت ہی نہیں
دل سے نزدیک ہیں جو دوست پرانے ہیں بہت
دل سکوں پائے جہاں ایسے بسیرے کتنے
یوں تو کہیے کہ مسافر کو ٹھکانے ہیں بہت
در کبھی خواب کا کھلتا ہے عذابوں کی طرف
یہ نہ کہیے کہ سبھی خواب سہانے ہیں بہت
کون سی بات کریں کس سے بچائیں پہلو
جو کبھی ختم نہ ہوں ایسے فسانے ہیں بہت
رضیہؔ کیا کام ہمیں گنج گراں مایہ سے
ہم سے لوگوں کے لیے شعر خزانے ہیں بہت