دل دھڑکتا ہے تیری قربت سے
زخم گہرے ہیں تیری فرقت سے
دل کو بہلا رہے ہیں وحشت سے
دُور ہیں آج کل سکونت سے
وقت بدلے تو حال بھی بدلے
کچھ شکایت نہیں ہے قسمت سے
حوصلہ ہم نے پھر بھی ہارا نہیں
کامیابی ملے گی ہمت سے
روشنی کی طلب میں رہتے ہیں
دل جلایا ہے ہم نے وحشت سے
جانتی ہوں فریب دنیا کا
پھر بھی اُلفت ہے بے حقیقت سے
دوست بنتے ہیں یوں ضرورت میں
ورنہ اُکتائے ہیں محبت سے
زندگی کا نصیب کیا کہیے
مات کھائی ہے اپنی قسمت سے
آخری بات ہو گئی بشرؔیٰ
ختم رشتہ ہوا عداوت سے