اٹھا دے پردہ کوئی پل بھر کے لیئے۔
کہ دل مشتاق ادھر اک نظر کے لیئے۔
نجانے کس آئینے میں قید ھے وہ صورت ؟
جو جھلک دکھلاتی نہیں ایک پہر کے لیئے۔
عاشقی صبر طلب اور تمنا بےدار۔
دل کو تلقین ھے کوئی صبر کے لیئے۔
حیف ! یہ خانہ خرابی اعتبار کی اس کے۔
دل بھی تیار ھے اپنا اسکے نشتر کے لیئے۔
سنا ھے سگ اسکے بڑے مزے میں ہین
ہم نے بھی حامی بھر لی اس در کے لیئے۔
نہیں معلوم کہ اس نے نامہ بر کیوں بھیجا ؟
کیا اپنے مرنے کی لینے خبر کے لیئے؟