دل میں شوقِ سفر نہیں ہوتا
تو فلک سے گُزر نہیں ہوتا
ہر صدا دل سے تو نکلتی ہے
اُس پہ پھِر کیوں اثر نہیں ہوتا
دل کی خواہش کہ کوئی دستک دے
دل کے آنگن میں در نہیں ہوتا
ہر کسی سے نہ میرا پوچھا کر
ہر کوئی با خبر نہیں ہوتا
پیار کے راستے پہ ساتھ چلو
مجھ سے تنہا سفر نہیں ہوتا
جو زمانے میں بانٹ دے خُود کو
اُس کو چوری کا ڈر نہیں ہوتا
یہ جو اپنی خُودی کو بیچتے ہیں
ان کے شانوں پہ سر نہیں ہوتا