دل میں نہ ہو جُرت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
دیکھا ہے جس میں نہ کوئی تھا شاہد
وہ کون ہے جس میں تیری صورت نہیں ملتی
ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت مسعود
رونے کو یہاں ویسے بھی کسی کو فرصت نہیں ملتی