یہ دل ہے جو کہتا ہے اب بھی آ جاؤ
شامِ شہرِ رفتگاں ہے اب بھی آ جاؤ
دل نے تھوکا ہے خون جگر ہجر میں
یہ تھوڑا بہت ذندہ ہے اب بھی آ جاؤ
ترکِ تعلّق تو ہم تم کر چکے ہیں مگر
مگر اک عہد ادھورا ہے اب بھی آجاؤ
آسماں اوڑھ چکا ہے چادرِابر جانےمن
واجد موسمِ وصال ہے اب بھی آ جاؤ